فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر

ہم مدینے میں تنہا نکل جائیں گے اور گلیوں میں قصداً بھٹک جائیں گے

ہم وہاں جا کے واپس نہیں آئیں گے ‘ ڈھونڈتے ڈھونڈتے لوگ تھک جائیں گے


فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر ہم بھی بے بس نہیں بے سہارا نہیں

خوداُنہیں کو پکاریں گے ہم دور سے ‘ راستے میں اگر پاؤں تھک جائیں گے


میری بے نور آنکھوں پہ مت جائیے ‘ رہنمائی کی زحمت نہ فرمایئے

جب اُٹھے گی ادھر وہ نگاہِ کرم ‘ راستے تابہ منزل چمک جائیں گے


جیسے ہی سبز گنبد نظر آئے گا ‘ بندگی کا قرینہ بدل جائے گا

سر جھکانے کی فرصت ملے گی کسے خود ہی پلکوں سے سجدے ٹپک جائیں گے


اے مدینے کے زائر خدا کے لئے داستان سفر مجھ کو یوں مت سنا

بات بڑھ جائے گی ‘ دل تڑپ جائے گا ‘ میرے محتاط آنسو چھلک جائیں گے


جب چلے گی مدینہ سے ٹھنڈی ہوا‘ گھِر کے جب آئے گی اودی اودی گھٹا

ہر طرف پھول ہی پھول کھل جائیں گے ‘ بام ودر نکہتوں سے مہک جائیں گے


نامِ آقاﷺ جہاں بھی لیا جائے گا ‘ ذکر ان کا جہاں بھی کیا جائے گا

نور ہی نور سینوں میں بھر جائے گا‘ ساری محفل میں جلوے لپک جائیں گے


ان کی چشمِ کرم کو ہے اس کی خبر ‘ کس مسافر کو کتنا ہے شوقِ سفر

ہم کو اقبؔال جب بھی اجازت ملی ‘ ہم بھی آقاؐ کے دربار تک جائیں گے

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

نور بہتا ہو جہا ں تشنہ لبی کیسے ہو

اے سبز گنبد والے منظور دعا کرنا

لب پہ صلِ علیٰ کے ترانے

مدینہ کی بہاروں سے سکونِ قلب مِلتا ہے

میری الفت مدینے سے یوں ہی نہیں

مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ

کیا خبر کیا سزا مجھ کو ملتی

جہاں روضہء پاک خیرالورا ہے وہ جنت نہیں ہے ‘ تو پھر اور کیا ہے

یا نبی نظرِ کرم فرمانا اے حسنین کے نانا

تو شاہِ خوباں، تو جانِ جاناں