میری الفت مدینے سے یوں ہی نہیں

میری الفت مدینے سے یوں ہی نہیں میرے آقا کا روضہ مدینے میں ہے

میں مدینے کی جانب نہ کیسے کھینچوں میرا تو جینا مرنا مدینے میں ہے ۔


عرشِ اعظم سے جس کی بڑی شان ہے روضہ مصطفٰی جس کی پہچان ہے ۔

جس کا ہم پلا کوئی محلہ نہیں ایک ایسا محلہ مدینے میں ہے ۔


پھر مجھے موت کا کوئی خطرہ نہ ہو موت کیا زندگی کی بھی پروا نہ ہو۔

کاش سرکار اک بار مجھ سے کہیں اب تیرا مرنا جینا مدینے میں ہے ۔


سرور ِ دو جہاں سے دعا ہے مری، ہاں بد چشم تر التجا ہے مری

ان کی فہرست مین میرا بھی نام ہو ، جن کا روز آنا جانا مدینے میں ہے


جب نظر سوئے طیبہ روانہ ہوئی ساتھ دل بھی گیا ساتھ جاں بھی گئی

میں منیر اب رہوں گا یہاں کس لئے میرا سارا اثاثہ مدینے میں ہے ۔

شاعر کا نام :- منیر قصوری

یوں تو سارے نبی محترم ہیں

ایہہ کون آیا جدِھے آیاں

تیری ہر اک ادا علی اکبر

سر محفل کرم اتنا مرے سرکار ہو جائے

نورِ ازلی چمکیا غائب ہنیرا ہوگیا

اُن کے دربارِ اقدس میں جب بھی کوئی

برس چالیس گذرے نعت کی محفل سجانے میں

منگتے خالی ہاتھ نہ لَوٹے کِتنی ملی خیرات نہ پوچھو

آج ہے جشنِ ولادت مرحبا یامصطَفٰے

زندگی یادِ مدینہ میں گزاری ساری