میری الفت مدینے سے یوں ہی نہیں

میری الفت مدینے سے یوں ہی نہیں میرے آقا کا روضہ مدینے میں ہے

میں مدینے کی جانب نہ کیسے کھینچوں میرا تو جینا مرنا مدینے میں ہے ۔


عرشِ اعظم سے جس کی بڑی شان ہے روضہ مصطفٰی جس کی پہچان ہے ۔

جس کا ہم پلا کوئی محلہ نہیں ایک ایسا محلہ مدینے میں ہے ۔


پھر مجھے موت کا کوئی خطرہ نہ ہو موت کیا زندگی کی بھی پروا نہ ہو۔

کاش سرکار اک بار مجھ سے کہیں اب تیرا مرنا جینا مدینے میں ہے ۔


سرور ِ دو جہاں سے دعا ہے مری، ہاں بد چشم تر التجا ہے مری

ان کی فہرست مین میرا بھی نام ہو ، جن کا روز آنا جانا مدینے میں ہے


جب نظر سوئے طیبہ روانہ ہوئی ساتھ دل بھی گیا ساتھ جاں بھی گئی

میں منیر اب رہوں گا یہاں کس لئے میرا سارا اثاثہ مدینے میں ہے ۔

شاعر کا نام :- منیر قصوری

دیگر کلام

درود اس پر کہ جس نے سر بلندی خاک کو بخشی

نور بہتا ہو جہا ں تشنہ لبی کیسے ہو

اے سبز گنبد والے منظور دعا کرنا

لب پہ صلِ علیٰ کے ترانے

مدینہ کی بہاروں سے سکونِ قلب مِلتا ہے

فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر

مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ

کیا خبر کیا سزا مجھ کو ملتی

جہاں روضہء پاک خیرالورا ہے وہ جنت نہیں ہے ‘ تو پھر اور کیا ہے

یا نبی نظرِ کرم فرمانا اے حسنین کے نانا