کیا خبر کیا سزا مجھ کو ملتی

کیا خبر کیا سزا مجھ کو ملتی ‘ میرے آقا ﷺ نے عزت بچالی

فردِ عصیاں مری مجھ سے لے کر ‘ کالی کملی میں اپنی چھپا لی


وہ عطا پر عطا کر نے والے اور ہم بھی نہیں ٹلنے والے

جیسی ڈیوڑھی ہے ویسے بھکاری ‘ جیسا داتا ہے ویسے سوالی


میں گدَا ہوں مگر کس کے در کا ؟ وہ جو سلطانِ کون و مکاں ہیں

یہ غلامی بڑی مستند ہے ‘ میرے سر پر ہے تاجِ بلالی


میری عمرِ رواں بس ٹھہر جا ‘ اب سفر کی ضرورت نہیں ہے

ان کے قدموں میں میری جبیں ہے اور ہاتھوں میں روضے کی جالی


اس کو کہتے ہیں بندہ نوازی ‘ نام اس کا ہے رحمت مزاجی

دوستوں پر بھی چشم کر م ہے ‘ دشمنوں سے بھی شیریں مقالی


میں مدینے سے کیا آگیا ہوں ‘ زندگی جیسے بجھ سی گئی ہے

گھر کے اندر فضا سونی سونی ‘ گھر کے باہر سماں خالی خالی


کوئی باد مخالف سے کہہ دے ‘ اب مری روشنی مجھ سے چھینے

میں نے آنکھوں کی شمعیں بجھا کر ‘ دل میں طیبہ کی مشعل جلالی


میں فقط نام لیوا ہوں اُن کا ‘ اُن کی توصیف میں کیا کروں گا

ؔمیں نہ اقباؔل خسروؔ ‘ نہ سعدیؔ ‘ میں قدسی ؔ نہ جامی ؔ‘ نہ حالی

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

لب پہ صلِ علیٰ کے ترانے

مدینہ کی بہاروں سے سکونِ قلب مِلتا ہے

میری الفت مدینے سے یوں ہی نہیں

فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر

مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ

جہاں روضہء پاک خیرالورا ہے وہ جنت نہیں ہے ‘ تو پھر اور کیا ہے

یا نبی نظرِ کرم فرمانا اے حسنین کے نانا

تو شاہِ خوباں، تو جانِ جاناں

پہلے وجدان نعت کہتا ہے

میں کبھی نثر کبھی نظم کی صورت لکھوں