مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ

مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ

جبیں افسردہ افسردہ قدم لغزیدہ لغزیدہ


چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانبِ طیبہ

نظر شرمندہ شرمندہ، بدن لرزیدہ لرزیدہ


کسی کے ہاتھ نے مجھ کو سہارا دے دیا ورنہ

کہاں میں اور کہاں یہ راستے پیچیدہ پیچیدہ


غلامانِ محمدﷺ دور سے پہچانے جاتے ہیں

دل گرویدہ گرویدہ ، سر شوریدہ شوریدہ


کہاں میں اور کہاں اس روضہ اقدس کا نظّارہ

نظر اُس سمت اٹھتی ہے مگر دزدیدہ دزدیدہ


مدینے جا کے ہم سمجھے تقدس کس کو کہتے ہیں

ہَوا پاکیزہ پاکیزہ ، فضا سنجیدہ سنجیدہ


بصارت کھو گئی لیکن بصیرت تو سلامت ہے

مدینہ ہم نے دیکھا ہے مگر نادیدہ نادیدہ


وہی اقبؔال جس کو ناز تھا کل خوش مزاجی پر

فراقِ طیبہ میں رہتا ہے اب رنجیدہ رنجیدہ

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

اے سبز گنبد والے منظور دعا کرنا

لب پہ صلِ علیٰ کے ترانے

مدینہ کی بہاروں سے سکونِ قلب مِلتا ہے

میری الفت مدینے سے یوں ہی نہیں

فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر

کیا خبر کیا سزا مجھ کو ملتی

جہاں روضہء پاک خیرالورا ہے وہ جنت نہیں ہے ‘ تو پھر اور کیا ہے

یا نبی نظرِ کرم فرمانا اے حسنین کے نانا

تو شاہِ خوباں، تو جانِ جاناں

پہلے وجدان نعت کہتا ہے