جہاں روضہء پاک خیرالورا ہے وہ جنت نہیں ہے ‘ تو پھر اور کیا ہے

جہاں روضہء پاک خیرالورا ہے وہ جنت نہیں ہے ‘ تو پھر اور کیا ہے

کہاں میں کہاں یہ مدینے کی گلیاں یہ قسمت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے


محمد ﷺ کی عظمت کو کیا پوچھتے ہو کہ وہ صاحب ِ قَاب قَوسین ٹھہرے

بشر کی سرِ عرش مہماں نوازی ‘ یہ عظمت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے


جو عاصی کو کملی میں اپنی چھپالے ‘ جو دشمن کو بھی زخم کھا کر دُعا دے

اسے اور کیا نام دے گا زمانہ وہ رحمت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے


شفاعت قیامت کی تابع نہیں ہے ‘ یہ چشمہ تو روز ازل سے ہے جاری

خطا کار بندوں پہ لطف مسلسل شفاعت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے


قیامت کا اک دن ہے معیّن لیکن ہمارے لیے ہر نفس ہے قیامت

مدینے سے ہم جاں نثاروں کی دوری قیامت نہیں ہے ‘ تو پھر اور کیا ہے


تم اقبؔال یہ نعت کہہ تو رہے ہو مگر یہ بھی سوچا کہ کیا کر کررہے ہو

کہاں تم کہاں مدح ممدوحِ یزداں ‘ یہ جراءت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

مدینہ کی بہاروں سے سکونِ قلب مِلتا ہے

میری الفت مدینے سے یوں ہی نہیں

فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر

مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ

کیا خبر کیا سزا مجھ کو ملتی

یا نبی نظرِ کرم فرمانا اے حسنین کے نانا

تو شاہِ خوباں، تو جانِ جاناں

پہلے وجدان نعت کہتا ہے

میں کبھی نثر کبھی نظم کی صورت لکھوں

جب سجتی ہے بندے کی دعا صلِ علیٰ سے