نام بھی تیرا عقیدت سے لیے جاتا ہوں

نام بھی تیرا عقیدت سے لئے جاتا ہوں

ہر قدم پر تجھے سجدے بھی کئے جاتا ہوں


کوئی دنیا میں مِرا مونس و غمخوار نہیں

تیری رحمت کے سہارے پہ جیے جاتا ہوں


تیرے اوصاف میں اک وصف خطا پوشی ہے

اس بھروسے پہ خطائیں بھی کئے جاتا ہو ں


آزمائش کا محل ہو کہ مَسرّت کا مقام

سجدہء شکر بہر حال کئے جاتا ہوں


زندگی نام ہے اللہ پہ مَر مٹنے کا

یہ سبق سارے زمانے کو دیئے جاتا ہوں


صبر کرنا ہے تری شانِ کریمی کو عزیز

میں یہی سوچ کے آنسو بھی پیے جاتا ہوں


ہر گھڑی اُس کی رضا پیشِ نظر ہے اقبالؔ

شکر ہے ، ایک سلیقے سے جیے جاتا ہو ں

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دو عالم میں بٹتا ہے صدقہ نبی کا

شبِ سیہ میں دیا جلایا مرے نبی نے

زمین و زماں تمہارے لئے مَکِین و مکاں تمہارے لئے

قلبِ عاشق ہے اب پارہ پارہ

مجھ پر شہِ عرب کا ہر دم کرم رہے

جی کردا مدینے دیا سائیاں

ہر فصل میں پایا گلِ صحرا تروتازہ

ماہِ روشن بہارِ عالم

شہرِ طیبہ تیرے بازار مہکتے ہوں گے

آفاق رہینِ نظرِ احمدؐ مختار