سارے نبیوں کے عہدے بڑے ہیں لیکن آقا کا منصب جدا ہے
وہ امامِ صفِ انبیاہیں ‘ اُن کا رُتبہ بڑوں سے بڑا ہے
کوئی لفظوں سے کیسے بتا دے ‘ ان کے رُتبے کی حد ہے تو کیا ہے
ہم نے اپنے بڑوں سے سُنا ہے ‘ صرف اللہ ان سے بڑا ہے
وہ اک شہرِ نور الہدیٰ ہے ‘ جلوہ گاہوں کا اک سلسلہ ہے
جس کی ہر صبح شمس الضحیٰ ہے جس کی ہر شام بدرالدجیٰ ہے
نام جنت کا تم نے سُنا ہے ‘ میں نے اس کا نظارہ کیا ہے
میں یہاں سے تمہیں کیا بتادوں ‘ ان کی نگری کی گلیوں میں کیا ہے
کتنا پیارا ہے موسم وہاں کا ‘ کتنی پُر کیف ساری فضا ہے
تم مرے ساتھ خود چل کے دیکھو ‘ گرد طیبہ بھی خاک شفا ہے
یہ وہی شہرِ طیبہ ہے جس میں خواب گاہِ حبیب خدا ہے
کام ہے جن کا عقدہ کشائی ‘ نام بھی جن کا خیر الوریٰ ہے
جن کا رُتبہ سِوا ہے ‘ فہم و ادراک سے ماورا ء ہے
بحر و بر جن کے زیر نگیں ہیں ‘ تابہ افلاک جن کی ضیا ہے
پیشواؤں کے جو پیشوا ہیں ‘ اک لقب جن کا صدر العلاء ہے
قاب قوسین ہے جن کی منزل‘ رہگزر سدرۃ المنتہیٰ ہے
مستقل ان کی ڈیوڑھی عطا ہو‘ میرے معبود یہ التجا ہے
کوئی پوچھے تو یہ کہہ سکوں میں ‘ بابِ جبریل میرا پتہ ہے
شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم
کتاب کا نام :- زبُورِ حرم