بکھری پڑی ہے طیبہ میں خوشبو گلی گلی

بکھری پڑی ہے طیبہ میں خوشبو گلی گلی

جیسے ادھرسے گزرے ہیں آقا ابھی ابھی


اللہ رے مدینے کے پاکیزہ روز و شب

ماحول نور نور ‘ ہوائیں دھلی دھلی


خوش خلق میزبان محبت بھری فضا

اب تک مشام جاں میں ہیں یادیں رچی بسی


طیبہ کا ہر مکیں ہے اک پیکرِ خلوص

اللہ رکھے آقا کی کھیتی ہری بھری


شرم خطا ہے یوں ہوا میں حاضر حرم

نبضیں تھمی تھمی سی ‘ نگاہیں جھکی جھکی


ہو گوشہ چاہتا ہے مدینے کا احترام

جلوے قدم قدم ہیں ‘ تقدس گلی گلی


مجھ کو عطا ہوئی جو ریاضِ رسولﷺ سے

سانسوں میں آج تک ہے وہ خوشبو رچی بسی


پاسِ ادب سے میں نے وہاں کچھ نہیں کہا

لیکن مجھے یقین ہے میری سنی گئی


لوٹا تو میرے ساتھ تھی رحمت کی روشنی

گھر سے چلا تھا لے کے میں آنکھیں بجھی بجھی


جیسے مجھے سہارا دیا خود حضورﷺ نے

محسوس مجھ کو یوں بھی ہوا ہے کبھی کبھی


سورج اُتر کے جیسے مِرے گھر میں آگیا

جب بھی مِری زبان سے نکلا نبی نبی


صدیوں پرانا ہوچکا شہر حرم مگر

ہر چیز اس کی لگتی ہے اب بھی نئی نئی

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

مُصطفےٰ مُجتبےٰ محمدؐ ہیں

جاتا ہے زمانہ طرفِ کوئے مُحمَّد

ایسی بھی ہے مرے آقاؐ کے نگر کی خوشبو

مشک و عنبر چار سُو ، انوار بھی

زندگی کا قیام تم سے ہے

شانِ حضور فکرِ بشر میں نہ آ سکے

تن من وارا جس نے دیکھا چہرہ کملی والےﷺ کا

ہے دیار نبی ﷺ تو ہمارا وطن

میرے چن، میرے ماہی، میرے ڈھول سوہنیا

ہادئ و رہبر و امام تم پہ درود اور سلام