جاتا ہے زمانہ طرفِ کوئے مُحمَّد

جاتا ہے زمانہ طرفِ کوئے مُحمَّد

ہیں دونوں جہاں والہِ گیسوئے مُحمَّد


اِس لمحہء پُرکیف پہ صدقے یہ زمانہ

جب لائے صبا نکہتِ گیسوئے مُحمَّد


پُر نُور نہیں مہر و مہ و ذرّہ و انجم

ہے دہر میں تا بندگئ روئے مُحمَّد


دُنیا کی نگاہوں سے ہمیں واسطہ کیا ہے

اپنی تو نگاہیں ہیں فقط سوئے مُحمَّد


اے میرے خُدا اے مرے خالق مرے اللہ

ہم کو بھی دکھا دے رُخِ نیکوئے مُحمَّد


ہاں سونگھ کے دیکھو تو ہر اک غنچہ و گُل کو

ہر غنچہ و گُل دیتا ہے خوشبوئے مُحمَّد


اک لفظ بھی کہتا نہیں میں اپنی زباں سے

بہزادؔ نظر ہے طرفِ کوئے مُحمَّد

شاعر کا نام :- بہزاد لکھنوی

کتاب کا نام :- نعت حضور

دیگر کلام

ہوں بے قرار بہت عرضِ مُدّعا کے لیے

اُن کا نقشِ قدم چاہیے

رودادِ انبساط کا عنواں ہے تیری یاد

تیرے سوہنے مدینے توں قربان میں

پائی گئی ہے دوش پہ جن کے ، رِدائے خیر

حاصل ہے جسے الفتِ سرکار کی دولت

شافعِ روزِ محشر ہمارے نبی

دل ونگاہ کی دُنیا نئی نئی ہوئی ہے

بام و در شہر طیبہ پر رحمت دن رات برستی ہے

زیبِ فرشِ جہاں رسُولِ خُدا