ہوں بے قرار بہت عرضِ مُدّعا کے لیے

ہوں بے قرار بہت عرضِ مُدّعا کے لیے

حُضورؐ چشمِ کرم کیجئے خدا کے لیے


دُعا میں ، میں نے وسیلہ جو اُن کو ٹھہرایا

اَثر نے دَوڑ کے بو سے مِری دُعا کے لیے


تُمہارے دَر کی گدائی نے یہ شرف بخشا

کہ بادشاہوں نے بڑھ کر قدم گدا کے لیے


گناہ گاروں کا محشر میں رہ گیَا پَردہ

کُشادہ دامنِ رحمت ہوا عطا کے لیے


دَرِ حُضورؐ کِسی بے نوا پہ بند نہیں

کُھلا ہی رہتا ہے بابِ عطا سَخا کے لیے


مدینے چل کے ادا ہوگا عِشق کا سَجدہ

مچل رہی ہے جبیں اُن کے نقشِ پا کے لیے


سُکون پایا دِلِ مُضطرب نے کعبہ میں

مَزے بہشت کے ہم نے مدینے جا کے لیے


یہ میری جھُولی مرادوں سے بھَر گئی خالدؔ

کھلے نہ تھے ابھی لب عرضِ مُدّعا کے لیے

شاعر کا نام :- خالد محمود خالد

کتاب کا نام :- قدم قدم سجدے

دیگر کلام

باخبر سرِ حقیقت سے وہ مستانے ہیں

خلوت كده دل گل خندان محمد

محفل نعت نبی خوب سجا دی جائے

کیا مقدر حسین ہمارا ہے

کیا پوچھتے ہو عزّت و عظمت رسُولؐ کی

ہیں درپئے آزار ستم گر، مرے سرورؐ

مقدر میرا چمکے گا درِ سرکار دیکھوں گا

آؤ آؤ ادھر طالبانِ کرم

دل میں اترتے حرف سے مجھ کو ملا پتا ترا

نظر کرم ہو شاہ مدینہ