نظر کرم ہو شاہ مدینہ

نظر کرم ہو شاہ مدینہ

جھولی ہے خالی بخشو خزینہ


میں بھی مرادیں من کی پاؤں

میں بھی آپ کے در پر آؤں


پہنچے مدینے میرا سفینہ

شاه مدینہ شاہ مدینہ


میرے دن اور میری راتیں

آپ کی یادیں آپ کی باتیں


اس کے علاوہ سوچا کبھی نہ

شاه مدینہ شاہ مدینہ


آوے ناہیں دل کو چیناں

پل پل روویں میرے نیناں


جب آوے ہے حج کا مہینہ

شاه مدینہ شاہ مدینہ


سبز گنبد کی پیاری چھیاں

دیکھو میں اور میریاں سیاں


در پہ بلا لو شاہ مدینہ

شاه مدینہ شاہ مدینہ


جالی روضے کی میں چوموں

طیبہ کی گلیوں میں گھوموں


چمکے میرے دل کا نگینہ

شاه مدینہ شاہ مدینہ


رحمت کی برسات کا صدقہ

طیبہ کے دن رات کا صدقہ


جب چاہوں دیکھوں میں مدینہ

شاه مدینہ شاہ مدینہ


مرے والی وارث مولا

در پہ بلا لو میرے آقا


یاد میں جلتا ہے یہ سینہ

شاه مدینہ شاہ مدینہ


کستوری ہو چاہے عنبر

اس کے من کو بھائے کیونکر


آپ کا جس نے پایا پسینہ

شاه مدینہ شاہ مدینہ


ترے کرم کی بھیک بھلی ہے

مرا تو ایمان یہی ہے


نام پہ تیرے مرنا جینا

شاه مدینہ شاہ مدینہ


شبیر و شبر کے نانا

خاتون جنت کے بابا


مجھ کو بنا دے خاک مدینہ

شاه مدینہ شاہ مدینہ


رحمت کی برسیں برساتیں

ان تک پہنچیں تیری باتیں


سیکھ لے کوئی ایسا قرینہ

شاه مدینہ شاہ مدینہ


آپ کے گیت نیازی گائے

اور خیال کبھی نہ آئے


جب تک باجے من کی بینا

شاه مدینہ شاہ مدینہ

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

سوہنیاں دے سردار نبی جی

فلک کا بھلا کیا تقابل زمیں سے

جس سے مراد مدحتِ شاہِ اُمم نہیں

خاک آدم خدا کا نور حضورؐ

جد تیکر اے دُنیا رہنی قائم تے آباد

دعا ہے زندگانی یوں بسر ہو

فلسفی! تجھ کو عبث دُھن ہے اُسے پانے کی

شاہؐ کے فیض سے انسان کا ہر کام چلا

یہ عشقِ مصطفیٰ میں خود آرائیِ خیال

جب کرم بار آپ ہوتے ہیں