حاصل ہے جسے الفتِ سرکار کی دولت

حاصل ہے جسے الفتِ سرکار کی دولت

پھر اُس کے لئے ہیچ ہے سنسار کی دولت


نظروں میں مِری ہیچ ہو پھر دولتِ دنیا

سرکار ! عطا کیجیے دیدار کی دولت


کرتا ہے سدا ذکرِ شہنشاہِ مدینہ

کیا اس کے سوا ہے دلِ بیمار کی دولت


نعتوں کے نگینوں کے سوا پاس نہیں کچھ

سب کچھ ہے یہی ایک قلم کار کی دولت


عشاقِ شہِ دیں کے لیے نوری خزانے

اعدائے محمد کے لیے نار کی دولت


عشقِ شہِ کونین کے گوہر نہیں جس میں

بیکار ہے وہ جبہ و دستار کی دولت


جب حشر کا بازار سجے ربِّ دو عالم

لے کر میں اٹھوں نعتیہ اشعار کی دولت


لگتا ہے شفیقؔ اب تو لحد میں ہی ملے گی

نظّارئہ حسنِ رُخِ سرکار کی دولت

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- متاعِ نعت

دیگر کلام

رحمت کی برستی بارش میں انسان پیاسا رہ جاتا

کسے معلوم ہے کتنی بلندی پر ہے مقام اُسؐ کا

آمنہ دا لال آ گیا ماہی ہے مثال آگیا

ثبت دل پر جو مہرِ نبوت ہوئی

بادشاہی کی ہے نہ زر کی تلاش

دیکھتی رہ گئیں سماں آنکھیں

پھر در مصطفیﷺ کی یاد آئی

ما سوا اک آستاں کے آستاں کوئی نہ ہو

دِل پہ اُن کی نظر ہو گئی

پھر پیش نظر سید عالم کا حرم ہے