شفیق ؔ رائے پوری

لطف تیرا تِرا کرم اللہ اللہ

ساری تنویروں کی تنویر خداوندِ کریم

نہ چھوٹے مجھ سے کبھی یہ اساس یا اللہ

ارضِ طیبہ میں ہو تدفین خداوندِ کریم

دیکھو مرا نصیب بھی کس اوج پر گیا

بھیج کر مکہ میں اِک نورِ ہدایت یا رب

وہ نور برستا ہے دن رات مدینے میں

گلے میں صرف محبت کا اک قِلادہ ہے

بن جائے یہ ہماری علامت خدا کرے

جو درود آقا پہ دن رات پڑھا کرتا ہے

تیغ نکلی نہ تبر نکلا نہ بھالا نکلا

چاہے دیارِ ہند میں کچھ بھی نہیں رہے

درودِ پاک کی کثرت پسند آتی ہے

تا حدِ نظر مہرِ نبوت کا اجالا

آسرا ہے شفیعِ محشر کا

غبارِ طیبہ سے چہرے کو صاف کرتی ہے

فداہے سارا عالم اُس شہِ عالم کی عظمت پر

یہی اِک آرزو دل کی ہے کاش بر آئے

ہم غلامِِ شہِ ھدیٰ ہو کر

بعدِ نماز اپنا یہی اک اصول ہے

اپنی مرضی سے کہاں نعتِ نبی کہتے ہیں

نسبت کا یہ کمال ہے خیر البشر کے ساتھ

فہم و اِدراک سے ماورا، منفرِد

جب سراپا نور کی جلوہ نمائی ہو گئی

کوثر کی بات ہو کہ شرابِ طہور کی

سرکار کی نگاہ بھی کیا لا جواب ہے

نہ چھوٹے ہاتھ سے کس کر پکڑ لے

شجر خوب صورت حجر خوب صورت

وظیفہ پڑھ کلامِ رب، کلام اعلیٰ حضرت کا

مِرے سرکار کی مدحت مِرے سرکار کی باتیں