یہی اِک آرزو دل کی ہے کاش بر آئے

یہی اِک آرزو دل کی ہے کاش بر آئے

مدینہ جائے مِری جاں نہ لوٹ کر آئے


ہمارے گھر میں تو طغریٰ ہےاسمِ احمدکا

مجال ہے جو مصیبت ہمارے گھر آئے


خدا سے دولتِ دیدارِ مصطفےٰ مانگوں

دعا میں اپنی بھی اے کاش کچھ اثر آئے


ہمیشہ یونہی جو یادِ نبی رہے قائم

غمِ فراق میں تپ تپ کے دل نکھر آئے


نہ پوچھ کیف و سرورِ حریمِ ناز نہ پوچھ

جو اہلِ ہوش گئے مست و بے خبر آئے


وہ دن بھی آئے کہ ہم بھی کہیں شفیقؔ کبھی

خدا کے گھر سے حبیبِ خدا کے گھر آئے

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- متاعِ نعت

دیگر کلام

درودِ پاک کی کثرت پسند آتی ہے

تا حدِ نظر مہرِ نبوت کا اجالا

آسرا ہے شفیعِ محشر کا

غبارِ طیبہ سے چہرے کو صاف کرتی ہے

فداہے سارا عالم اُس شہِ عالم کی عظمت پر

ہم غلامِِ شہِ ھدیٰ ہو کر

بعدِ نماز اپنا یہی اک اصول ہے

اپنی مرضی سے کہاں نعتِ نبی کہتے ہیں

نسبت کا یہ کمال ہے خیر البشر کے ساتھ

فہم و اِدراک سے ماورا، منفرِد