بعدِ نماز اپنا یہی اک اصول ہے

بعدِ نماز اپنا یہی اک اصول ہے

لب کے لئے درود ہے نعتِ رسول ہے


آنکھوں کوبندکرکےبھی دیکھیں وہ دور تک

واللہ کیا کمالِ نگاہِ رسول ہے


رُخ پر ملوں گا آنکھوں میں اپنی لگاؤں گا

لاؤ کسی کے پاس مدینے کی دھول ہے ؟


آ جا اے موت! اب کوئی خواہش نہیں رہی

آنکھوں کے سامنے درِ پاکِ رسول ہے


ہونے لگی ہے آمدِ اشعارِ نعت پھر

پھر میرے مصطفےٰ کے کرم کا نزول ہے


جاتی نہیںہے شہرِ مدینہ کی سمت جو

وہ راہ کام کی نہیں راہِ فضول ہے


جب شاہِ بحروبر ہیں شفاعت کے واسطے

پھر کس لئے شفیقؔ تو اتنا ملول ہے

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- متاعِ نعت

دیگر کلام

آسرا ہے شفیعِ محشر کا

غبارِ طیبہ سے چہرے کو صاف کرتی ہے

فداہے سارا عالم اُس شہِ عالم کی عظمت پر

یہی اِک آرزو دل کی ہے کاش بر آئے

ہم غلامِِ شہِ ھدیٰ ہو کر

اپنی مرضی سے کہاں نعتِ نبی کہتے ہیں

نسبت کا یہ کمال ہے خیر البشر کے ساتھ

فہم و اِدراک سے ماورا، منفرِد

جب سراپا نور کی جلوہ نمائی ہو گئی

کوثر کی بات ہو کہ شرابِ طہور کی