جب سراپا نور کی جلوہ نمائی ہو گئی

جب سراپا نور کی جلوہ نمائی ہو گئی

ضو فشاں وحدانیت روشن اکائی ہو گئی


حشر میں جس وقت چشمِ مصطفائی ہو گئی

پھر سمجھ لو قیدِ دوزخ سے رہائی ہو گئی


میں تلاوت کر رہا تھا آیتیں قرآن کی

اور نبیِٔ پاک کی مدحت سرائی ہو گئی


مشکلوں میں جب اغثنی یا نبی میں نے کہا

دیکھتے ہی دیکھتے مشکل کشائی ہو گئی


قبر کی ظلمت مٹی ہر سو اجالا ہوگیا

جس گھڑی سرکار کی جلوہ نمائی ہو گئی


سب بھٹکتے پھر رہے تھے گمرہی میں چارسو

آگئے آقا مِرے تو رہنمائی ہو گئی


تھا شفیق ؔ آقائے نعمت کا وسیلہ اس لیے

ہاتھ اُٹّھے بھی نہ تھے حاجت روائی ہو گئی

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- متاعِ نعت

دیگر کلام

راہِ حق میں جو سرِ راہ مدینہ آیا

لفظ پھولوں کی طرح مہکے ہوئے ہیں آج بھی

مدینہ کی بہاروں سے سکونِ قلب مِلتا ہے

تجھ بن تڑپ رہے ہیں دونوں جہان والے

حیات کے لئے عنواں نئے ملے ہم کو

نبیاں دا سردار مدینے

آنکھوں کو جستجو ہے تو طیبہ نگر کی ہے

میرے سجنو دُعا منگو

سجدہ، قیام، عجز و عبادت کچھ اور ہے

سایہ کیسا ہے نور کے پیچھے