تا حدِ نظر مہرِ نبوت کا اجالا

تا حدِ نظر مہرِ نبوت کا اجالا

ہے رحمتِ عالم تری رحمت کا اجالا


ڈوبا تھا ضلالت کے اندھیروں میں زمانہ

آپ آئے تو پھیلا ہے ہدایت کا اجالا


فرقت کے اندھیروں میں گھٹن ہونے لگی ہے

سرکار عطا ہو مجھے قربت کا اجالا


بے نور نگاہوں کا تقاضہ ہے شب و روز

مل جائے مدینے کی زیارت کا اجالا


ایماں کے لٹیروں کا مجھے خوف نہیں ہے

ہے سامنے سرکار کی سیرت کا اجالا


آنکھوں میں نہ بس جائے اندھیرا کہیں یارب

ہو اِن کو عطا شاہ کی تربت کا اجالا


سرکار ہیں مختار شفیقؔ اُن پہ یقیں رکھ

کردیں گے عطا تجھ کو بھی جنت کا اجالا

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- متاعِ نعت

دیگر کلام

سدا وسے نگاہواں وچ مدینہ

روشن تِری جبین ہے اے واسِعُ الجَبِین

اہدی جھولی کدی رہندی نہیں خالی

جو ہو سر کو رَسائی اُن کے دَر تک

اللہ دیا جانیاں ، مانیں سلطانیاں

طور نے تو خوب دیکھا جلوۂ شانِ جمال

ترے باغی ترے شاتم بشر اچھے نہیں لگتے

جو نور بار ہوا آفتابِ ُحسنِ َملیح

تری دعوت سے پتھر بن گئے انساں

لج پال اوہ والی امت دا ، امت دے درد ونڈاؤندا اے