بھیج کر مکہ میں اِک نورِ ہدایت یا رب

بھیج کر مکہ میں اِک نورِ ہدایت یا رب

بخش دی تو نے ہمیں صبحِ مسرت یا رب


ہے یہی ایک تمنا یہی حسرت یا رب

گنبدِ خضرا کی ہو جائے زیارت یا رب


خود بخود شاہ کی مدحت بھی ہوئی جاتی ہے

جیسے کرتا ہوں میں قرآں کی تلاوت یا رب


میں بھی نعتِ شہِ کونین میں مصروف رہوں

ہو مِرے رزقِ سخن میں بھی وہ برکت یا رب


پُر ہے عصیاں سے مِرا فردِ عمل، محشر میں

شافعِ حشر کی مل جائے شفاعت یا رب


بس یہ چاہت ہے کہ ایمان کی حالت میں مروں

اور اس کے سوا کچھ بھی نہیں چاہت یا رب


عمر بھر کرتا رہوں تیری رضا کی خاطر

تیرے محبوب کی اور تیری اطاعت یا رب


ایک یہ بھی ہے تمنائے شفیقِؔ عاصی

شاہِ کونین کی کرتا رہے مدحت یا رب


آپ ہی کی ذات پر تکیہ ہے آقائی حضور

حشرمیں ہونے نہ دیں گے آپ رسوائی حضور


گنبدِ خضرا جہاں سے صاف آتا تھا نظر

پھر تصور میں ہے مسجد کی وہ انگنائی حضور


ایک مصرع ہی ثنا کا، کاش ہو جاتا قبول

مدتوں سے کر رہا ہوں خامہ فرسائی حضور


آپ کی مدحت نگاری ہے مِرے پیشِ نظر

بخش دیں نا اہل کو تھوڑی سی دانائی حضور


لہلہا اٹھے ادھر بھی کشت زارِ زندگی

اس طرف بھی بھیج دیں رحمت کی پروائی حضور


ہے شفیقِؔ بے عمل کا بھی ثنا خوانوں میں نام

بخش دی ہے نعت گوئی نے وہ اونچائی حضور

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- متاعِ نعت

دیگر کلام

خوں کے پیاسوں کی جاں بخشنے آگئے

آئی ہے جالیوں سے بھی شاید لگا کے ہاتھ

روشنی روشنی ’’صراطِ نُور‘‘

سرمایۂ حیات ہے سِیرت رسولؐ کی

جب بھی ہم تذکرہء شہرِ پیمبر لکھیں

ان کی یاد میں رہتا ہوں اور مجھے کچھ کام نہیں

ہم پہ ہو تیری رحمت جم جم ، صلی اللہ علیک وسلم

تیغ نکلی نہ تبر نکلا نہ بھالا نکلا

کر لو مقبول یا رَسُوْلَ اللہ

نور ہی نور ہے، دیکھو تو انسان لگے