خوں کے پیاسوں کی جاں بخشنے آگئے

خوں کے پیاسوں کی جاں بخشنے آگئے بے اماں کو اماں بخشنے آگئے

آدمی کو محبت کی خوشبو ملی آمدِ مصطفی ٰ سے خدا کی قسم


ان سے پہلے جو آئے تھے سارے نبی ان کی میلاد کے منتظر تھے سبھی

ان کے رُتبہ کی نبیوں کو تھی آگہی کوئی ان کی ثنا کیا کرے گا رقم


ان کی خاطر بنائے زمیں و زماں وہ نہ ہوتے نہ ہوتے مکین و مکاں

سچ کہا یہ ادیبؔ آپ نے سچ کہا وجہِ تخلیق ِ عالم ہیں شاہِ اُمم


لائے تشریف دنیا میں شاہِ اُمم ابتدا بھی کرم ، انتہا بھی کرم

جن کو دھتکارتے تھے جہاں میں سبھی ، آپ آئے تو وہ ہوگئے محترم


غرق تھے معصیت میں گنہ گار جو ، رکھ لیا آکے ان عاصیوں کا بھرم

یہ تو کچھ بھی نہیں اِن سے لاکھوں سِوا ، جن پہ ان کی عطا ، جن پہ اُن کا کرم

شاعر کا نام :- حضرت ادیب رائے پوری

کتاب کا نام :- خوشبوئے ادیب

اندھیری رات ہے غم کی گھٹا عصیاں کی کالی ہے

خلق دیتی ہے دہائی مصؐطفےٰ یا مصؐطفےٰ

اللہ سوہنا کھیت کھیت ہریالی ونڈے

سرورِ ذیشان شاہِ انبیاء یعنی کہ آپ

دلوں کے گلشن مہک رہے ہیں

کبھی رنج آئے نہ آلام آئے

آخری وقت میں کیا رونقِ دنیا دیکھوں

قافلے عالمِ حیرت کے وہاں جاتے ہیں

صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا

اے مرشدِ کامل صل علیٰ