جو درود آقا پہ دن رات پڑھا کرتا ہے
نارِ دوزخ میں کہاں پھر وہ جلا کرتا ہے
سبز گنبد ہو مناریں ہوں کہ نوری روضہ
دل ہمیشہ انہیں محسوس کیا کرتا ہے
لوگ اُسے تاج بنا لیتے ہیں اپنے سر کا
جو رہِ عشقِ شہِ دیں پہ چلا کرتا ہے
میرے سرکار کو مختار کیا ہے رب نے
کرم ان کا ہی زمانے کو عطا کرتا ہے
چاند سورج ہوں ستارے ہوں شجر ہو کہ حجر
حکم سرکار کا ہر شے پہ چلا کرتا ہے
شام ہوتے ہی حضور آپ کی یادوں کا قمر
افقِِ چرخِ محبت میں اگا کرتا ہے
جس پہ عشاقِ شہنشاہِ امم چلتے ہیں
بچ کے اُس راہ سے شیطان چلا کرتا ہے
ہے کرم گلشنِ عشقِ شہِ ذیشاں پہ شفیق ؔ
نعت کا پھول یہاں روز کھِلاکرتا ہے
شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری
کتاب کا نام :- متاعِ نعت