نہ چھوٹے مجھ سے کبھی یہ اساس یا اللہ
ہمیشہ بن کے رہوں تیرا داس یا اللہ
بتائوں حشر میں جس کو اساس یا اللہ
عمل بھی ایسے نہیں میرے پاس یا اللہ
ترے ہی نور سے شاداب سارا گلشن ہے
تمام پھولوں میں تیری ہی باس یا اللہ
سبھی کو نان بھی تیری طرف سے نفقہ بھی
تنوں پہ تیرا ہی بخشا لباس یا اللہ
شعور و فکر سے ہے ماوریٰ مقام تِرا
ہے تیری ذات بعید از قیاس یا اللہ
یہ اور بات کہ ادراک ہو نہیں پایا
مگر ہے تو مِری شہ رگ سے پاس یا اللہ
تِری ہی راہ پہ چلتے رہیں تِرے بندے
دلوں میں ہو تِرا خوف و ہراس یا اللہ
چھڑا دیا مِرے ہاتھوں سے میرے عصیاں نے
نہیں ہے دامنِ ہوش و حواس یا اللہ
نہال ہو جو برس جائے جم کے ابرِ شفا
بہت دنوں سے ہے یہ دل اداس یا اللہ
نبی کی دید سے سیراب کردے آنکھوں کو
ستا رہی ہے زیارت کی پیاس یا اللہ
تِری عطائوں کی طالب نہیں فقط دنیا
شفیقؔ کو بھی ہے رحمت کی آس یا اللہ
شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری
کتاب کا نام :- متاعِ نعت