رودادِ انبساط کا عنواں ہے تیری یاد

رودادِ انبساط کا عنواں ہے تیری یاد

سب کیلئے نشاط کا ساماں ہے تیری یاد


ہر دَور میں پیامِ مسرت ہے تیرا ذکر

ہر فصل میں بہار بداماں ہے تیری یاد


افکارِ دو جہاں کا مداوا ہے تیرا نام

آلامِ روزگار کا درماں ہے تیری یاد


روشن ہے جِس کی ضُو سے جہانِ دل و نظر

وہ شمع تابناک و فروزاں ہے تیری یاد


جاہ و جلال اِن کی نگاہوں میں کیا جچے

مال و منالِ خاک نشیناں ہے تیری یاد

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

تیرا دربار ہے عالی آقاؐ

ترے نُور کا دائرہ چاہتا ہوں

دیارِ نور کا ہر بام و در مطاف کیا

خدا رحم کرتا نہیں اُس بشر پر

جلوے نے عرشاں فرشاں تے سرکار محمد عربی دے

کملی والیا شاہ اسوارا ، ائے عربی سلطانان

تجھ سے جو لو لگائے بیٹھے ہیں۔ بخت اپنے جگائے بیٹھے ہیں

مرا مدّعا ہیں مدینے کی گلیاں

اب تنگیِ داماں پہ نہ جا اور بھی کچھ مانگ!

ملیں دین و دنیا کی نعمتیں مجھے کیا نہ میرے خدا دیا