تجھ سے جو لو لگائے بیٹھے ہیں۔ بخت اپنے جگائے بیٹھے ہیں

تجھ سے جو لو لگائے بیٹھے ہیں۔ بخت اپنے جگائے بیٹھے ہیں

تیرے دیوانے آئے بیٹھے ہیں ۔ دامن دل بچھائے بیٹھے ہیں


آبھی جاؤ کہ دید ہو جائے ۔ تیری محفل سجائے بیٹھے ہیں

اپنی رحمت کی بھیک دے آقا ۔ جو ترے در پہ آئے بیٹھے ہیں


نام محبوب پر خدا کی قسم ۔ اپنا سب کچھ لگائے بیٹھے ہیں

ہم نہ اُٹھیں گے کوئے جاناں سے۔ ہم کسی کے بٹھائے بیٹھے ہیں


عشق سرکار تیری یادوں سے ۔ دل کی دنیا بسائے بیٹھے ہیں

یاد کرتا نہیں خدا بھی انہیں ۔ جو نبی کو بھلائے بیٹھے ہیں


ایک دن تو کھلے گا باب کرم - در پہ نظریں جمائے بیٹھے ہیں

ہم کو بلوائیے مدینے میں ۔ اُس کب سے لگائے بیٹھے ہیں


آج محفل میں میرے بندہ نواز - رخ سے پردہ اُٹھائے بیٹھے ہیں

ہم نیازی نبی کی یادوں سے۔ دل مدینہ بنائے بیٹھے ہیں

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

نصیب تیرے کرم سے چمک اٹھا یا رب

نعت حال لوگوں پہ انگلیاں اٹھاتے ہیں

ظہورِ سرورِ کون و مکاں ، ظہورِ حیات

حسنِ جہاں ہے آپؐ کے جلووں سے معتبر

وہ لوگ جو جاتے ہیں مکّے میں مدینے میں

مَیں کہاں، وہ سرزمینِ شاہِؐ بحرو بر کہاں

آنکھوں نے جہاں خاک اُڑائی ترے در کی

جمال ہستی دا حسن سارا مرے نبی دے جمال وچ اے

رات کا پچھلا پہر ہو مصطفیٰؐ ہو اور مَیں

لبوں سے اسمِ محمدﷺ کا نور لف کیا ہے