مَیں کہاں، وہ سرزمینِ شاہِؐ بحرو بر کہاں
اُن کے نقشِ پا پہ سجدہ کر سکے وہ سَر کہاں
اس سے بہتر، اِس سے برتر، اِس سے بڑھ چڑھ کر کہاں
دلربائی میں جوابِ گُنبدِ اخضر کہاں
آگئی ہے یاد اُن کی، لے اُڑا ہے جذبِ شوق
اب ٹھہر سکتا ہے پہلو میں دلِ مضطر کہاں
ہو چراغاں لاکھ، لیکن ظلمتیں مِٹتی نہیں
اُن کا جلوہ ہی نہ ہو جس میں، وہ روشن گھر کہاں
چاہتا ہوں، زندگی گزرے دیارِ پاک میں
شوق وارفتہ سہی، ایسا مقدّر پر کہاں
یا محمدؐ کہہ کے ، عاصہ حشر میں چُپ ہوگئے
گفتگو کی تاب، پیشِ داورِ محشر کہاں
اُن کی الفت میں نہیں گنجائش چون و چرا
کفر ہے اِس راہ میں کب، کیسے، کیا، کیوں کر، کہاں
راہِ عشقِ مصطفیٰؐ میں ذوق ہے زادِ سفر
رہرووں کے پاس کوئی بوریا، بستر، کہاں
طائرِ دل سُوئے عصیاں لاکھ پر مارے، مگر
دام ِرحمت سے بھلا یہ جائے گا بچ کر کہاں
سنگِ اسود ہے نصیرؔ اپنی جگہ اپنا جواب
زینتِ دیوارِ کعبہ یُوں کوئی پتّھر کہاں
شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر
کتاب کا نام :- دیں ہمہ اوست