مدحِ میر و قصیدۂ سُلطاں
طے نہ یہ جاں ستاں مراحل کر
اتنے پتّھر بچھا کے گام بہ گام
سفرِ زندگی نہ مُشکل کر
وصفِ زن، ذکرِ زن، مناقبِ زن
عشق کو مت سپردِ قاتل کر
چھوڑ توصیفِ شاہدانِ مجاز
طوق گردن میں مت حمائل کر
وصفِ گیسو و چشم و عارض و لب
ترک یہ کاروبارِ باطل کر
لذّت بوسہ و نشاطِ وصال
دُور یہ نفس کے رذائل کر
فِکر کی کج روی و بے سمتی
ذوقِ رفتار میں نہ حائل کر
رُوحِ طیّب کی بھی صدا سُن لے
مُسترد بدنُما مشاغل کر
کر کے غاوٗون سے الگ خُود کو
کعب و حسّاں کی صف میں شامل کر
نعت کی راہِ مستقیم پہ چل
نعت کو فِکر و فن کی منزل کر
اے ثنا گوئے سیّد الکونینؐ
خُود کو اِس منزلت کے قابل کر
خُود کو رکھ عشق کی کسوٹی پر
چہرہ آئینے کے مقابل کر
نعت کو کارِ بے خودی نہ سمجھ
دل کو علم و خبر کا حامل کر
جان اس راہ کے نشیب و فراز
جوش کو ہوش کا مماثل کر
تیغِ بّراں سے تیز تر ہے یہ راہ
یک نَفس بھی نہ خُود کو غافل کر
نعت کی حُرمتیں نگاہ میں رکھ
نعت کیا ہے؟ شعُور حاصل کر
دل میں ہو عشق، لب پہ نغمۂ مدح
طوفِ گُل صورتِ عنادل کر
چل پڑا ہے تو خامۂ فن کو
صد سلامت روی پہ مائل کر
ذات کو اُُن کی حُب میں گم کر دے
اپنے پُورے وجُود کو دِل کر
ہے ادب آفریں حضُورؐ کی ذات
اپنی دانش کو اُن کا سائل کر
دل کی سچائیوں کو شعر میں ڈھال
صدق سے مدحتِ فضائل کر
اپنے حرف و بیاں کی رگ رگ میں
اپنا خُونِ جگر بھی داخل کر
حُسنِ فن بھی، جمالِ معنیٰ بھی
لائقِ پیشکش بنیں مِل کر
ہر کلی کو گُلِ بہار بنا
ہر ستارے کو ماہِ کامل کر
سرورِؐ دیں قبُول فرمالیں
ایسا مہکے گُلِ ثنا کھل کر
مدحِ سیرت جو کی، تو خُود کو بھی
پیروِ اُسوہ ہائے کامل کر
یعنی جب نعت کر چُکے تخلیق
نعت کو اپنے دل پہ نازل کر
شاعر کا نام :- عاصی کرنالی
کتاب کا نام :- حرف شیریں