عاصی کرنالی

جب مسافر کے قدم رک جائیں

مُشتِ گل ہُوں وہ خرامِ ناز دیتا ہے مُجھے

ترا لُطف جس کو چاہے اُسے ضَوفشاں بنا دے

مالکِ ارض و سما فرمانِ راحت بھیج دے

اقلیمِ دو جہاں کے شہنشاہ فضل کر

اے خُدا تُو نے اپنے بندوں کو

مدحِ میر و قصیدۂ سُلطاں

ذکر کی محفل جما دینا بھی اُن کی نعت ہے

لو وُہ آیا اذن لو آقا نے بلوایا مُجھے

ترے در پر جو کیف آیا کہیں جا کر نہیں آیا

مَیں پچھلے سال اِن دنوں شھرِ نبیؑ میں تھا

چلے ہیں اہلِ طلب سُوئے منزلِ مقصُود

آخری نبّوت کے ایک ایک لمحے میں

اَب کوئی لمحہ کوئی پَل کٹتا نہیں درُود بِن

جانِ رحمت مرا واسطہ آپ سے

جب ہجرِ طیبہ نے مُجھے مضطر بنا دیا

سرکار مَیں کیا عرض کروں ہاتھ اُٹھا کے

وہ درد چاہئے مولا کہ چارہ ساز رہے

وہ مہرِ مُبیں جب سے ہے جلوہ گر

یہ دین یہ دانش کا اُجالا تری رحمت

دلِ تپیدہ ہے صحرا تو چشمِ تر دریا

طیبہ میں سدا صبُحِ مسلسل کا سماں ہَے

جو روشنی مدینے کے دیوار و دَر میں ہے

فضائے مدح میں ہم جذبۂ کامل سے آئے ہیں

ہے مدح و ثنا شعار میرا

جب سے مَیں تیرے عشق میں گُم ہُوں

ہمارے چراغ اور تمہارے چراغ

کرتے ہیں سرکارؐ خود دِل داریاں

مَلوں گا خاک خط و خالِ رُخ نِکھاروں گا

مصائب میں تُجھ سے توسل کیا