وہ مہرِ مُبیں جب سے ہے جلوہ گر
سحر ہی سحر ہے سحر ہی سحر
ترا مرتبہ یہ ہے المختصر
تری خاکِ پا سے طلُوعِ بشر
نہ ہوتی تری ذات منزل اگر
کہیں ختم ہوتا نہ دشتِ سفر
مدینہ مدینے کے دیوار و دَر
وجودِ محبّت نظر ہی نظر
یہاں جب سے موجُود ہے القمر
زمیں پر جُھکے ہیں ستاروں کے سَر
مدینے سے جانا ہے شرطِ سفر
مدینے سے مَیں جا رہا ہُوں مگر
تصوّر میں مانع ہے حدِّ ادب
تجلّی میں حائل ہے حدِّ نظر
دُعا کا توسلّ محمّدؐ سے ہے
دُعا کے قدم چومتا ہے اثر
درِ فیض سے جب تعلّق ہُوا
ملا کِس قدر کِس قدر کِس قدر
ترا ہی تصوّر تجھی پر درُود
نہ فکر دگر ہے نہ کارِ دگر
ترا سایہ ہم کو میسّر ہُوا
یہ سایہ میسّر نہ ہوتا اگر؟
یہ مدحت نگاری کا انعام ہے
بہت محترم ہُوں بہت مقتدر
مرے لفظ ہیں نا دمیدہ ہنُوز
کلی کو بنا دے گُلابِ ہُنر
شاعر کا نام :- عاصی کرنالی
کتاب کا نام :- حرف شیریں