آنکھوں نے جہاں خاک اُڑائی ترے در کی

آنکھوں نے جہاں خاک اُڑائی ترے در کی

خود قلب میں صورت اُتر آئی ترے در کی


کعبہ بھی ، سرِ عرش بھی ، فردوس و نجف بھی

وہ دل ! جسے حاصل ہو رسائی ترے درکی


مقصودِ حقیقی نے قدم بڑھ کے لیے ہیں

جس نے بھی جہاں دی ہے دُہائی ترے در کی


میں اہلِ محبت میں امیر الامراء ہوں

راس آئی ہے یوں مجھ کو گدائی ترے در کی


سر کیوں نہ جھکائیں بصد آداب فرشتے

منظور خدا کو ہے خدائی ترے در کی


سجدہ مرا کیسے نہ ہو؟ سجدوں کا بھی قبلہ

پیشانئ ایماں ہے کمائی ترے در کی


جلووں کے بھی جلوے سمٹ آئے مرے دل میں

آنکھوں نے مری خاک جو پائی ترے در کی


سر کو مرے کہتے ہیں صبیحؔ اہلِ نظر در

ممکن نہیں مجھ سے تو جدائی ترے در کی

کتاب کا نام :- کلیات صبیح رحمانی

دیگر کلام

جیہڑے کر دے حضور دا میلاد رہن گے

تیرے تے سلام سانوں تار دین والیا

میں جب سرکار بطحا کے در اقدس پہ جا نکلا

حرفِ کمال کر کے رقم چُوم لیجئے

بِذِکْرِ الْمُصْطَفٰے ہَادِی الزَّمَان

کعبے کے در کے سامنے مانگی ہے یہ دعا فقط

فضل ہے شاہ و گدا سب پہ ہی یکساں تیرا

حرفِ مدحت جو مری عرضِ ہنر میں چمکا

جد رات پئی تے سوہنے نوں رب کول بلا کے ویکھ لیا

جبین شب پر رقم کیے حرف کہکشاں کے