وہ لوگ جو جاتے ہیں مکّے میں مدینے میں

وہ لوگ جو جاتے ہیں مکّے میں مدینے میں

تقدیر بناتے ہیں مکّے میں مدینے میں


اب تک ہیں فضاؤں میں خوشبوئیں پسینے کی

آثار بتاتے ہیں مکّے میں مدینے میں


منظر وہ احد کے ہوں یا غارِ حرا کے ہوں

اک یاد دلاتے ہیں مکّے میں مدینے میں


کعبے کی فضا تجھ سے روضے کی ضیا تجھ سے

ہم دل چمکاتے ہیں مکّے میں مدینے میں


کعبے کی چمک میں بھی روضے کی مہک میں بھی

ہم تجھ کو ہی پاتے ہیں مکّے میں مدینے میں


عشّاق ترے آقا بس تیری محبت میں

آتے کبھی جاتے ہیں مکّے میں مدینے میں


اک تیرے تصور میں پھرتے ہیں جو گلیوں میں

ہم پیاس بجھاتے ہیں مکّے میں مدینے میں


توحید کا نغمہ ہو یا بات درودوں کی

ہم تجھ کو سناتے ہیں مکّے میں مدینے میں


رحمت کی امیدیں ہوں، بخشش کی نویدیں ہوں

سب تجھ ہی سے پاتے ہیں مکّے میں مدینے میں


مکّہ بھی ترا اعلیٰ طیبہ بھی ترا افضل

ہم سر کو جھکاتے ہیں مکّے میں مدینے میں


اک تیرا سہارا ہو بخشش کا اشارا ہو

اس آس پہ آتے ہیں مکّے میں مدینے میں


اے کاش ہو نوری بھی ان سعد نصیبوں میں

ہر سال جو آتے ہیں مکّے میں مدینے میں

شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری

کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا

ہے دل میں عشقِ نبیﷺ کا جلوہ

راحت جاں ہے خیال شہؐ مکی مدنی

ہوئی ظلم کی انتہا کملی والے

ہو گی کس سے بیاں عظمتِ مصطفی

گلزارِ مدینہ صلِّ علیٰ، رحمت کی گھٹا سبحان اللہ

نام ربّ انام ہے تیرا

سرِ سناں سج کے جانے والے

رحمتِ بے کراں مدینہ ہے

ماہِ تاباں سے بڑھ کر ہے روشن جبیں

تصویرِ حسنِ بے نِشاں صلِّ علیٰ صلِّ علیٰ