رحمتِ بے کراں مدینہ ہے

رحمتِ بے کراں مدینہ ہے

رونقِ دوجہاں مدینہ ہے


کیا بیاں ہوں مروّتیں اِس کی

دھوپ میں سائباں مدینہ ہے


اس کے ذرّے بھی چاند تارے ہیں

کس قدر ضوفشاں مدینہ ہے


فکر و دانش نے رنگ پہنے ہیں

حکمتوں کا بیاں مدینہ ہے


کھِلتے رہتے ہیں پھول رحمت کے

خطّۂِ بے خزاں مدینہ ہے


بھرتا رہتا ہے جھولیاں سب کی

کس قدر مہرباں مدینہ ہے


سَر جھکا کر یہ آسماں نے کہا

میں زمیں آسماں مدینہ ہے


ہے مدینہ جہاں ، وہاں ہوں مَیں

دل وہاں ہے جہاں مدینہ ہے


موت فیضیؔ کو دے وہیں یا ربّ!

نُور اَفشاں جہاں مدینہ ہے

شاعر کا نام :- اسلم فیضی

کتاب کا نام :- سحابِ رحمت

کرم کے آشیانے کی کیا بات ہے

جب سامنے نظروں کے دربار نبیﷺ ہوگا

حکمت کے آئینے کا سکندر ہے تو حسینؑ

آخِری روزے ہیں دل غمناک مُضطَر جان ہے

سُنتے ہیں کہ محشر میں صرف اُن کی رَسائی ہے

اپنے دامانِ شفاعت میں چھُپائے رکھنا

پکارو یارسول اللہ یاحبیب اللہ

زندگی میری ہے یارب یہ امانت تیری

ولادتِ رسُولؐ

نہ ہو آرام جس بیمار کو سارے زمانے سے