عطائے ربّ ہے جمالِ طیبہ

عطائے ربّ ہے جمالِ طیبہ

بھلا کہاں ہے مثالِ طیبہ؟


جھکا جھکا سا ہے آسماں بھی

ہے کیسا اوجِ کمالِ طیبہ


سحابِ رحمت برس رہا ہے

کہ ُرو بہ رُو ہے جمالِ طیبہ


ہے سب سے بڑھ کر یہی عنایت

رہے لبوں پر سوالِ طیبہ


تمام عالَم کو چھان مارا

کہیں نہیں ہے مثالِ طیبہ


مہکنے لگتی ہیں میری سانسیں

کبھی جو آئے خیالِ طیبہ

شاعر کا نام :- اسلم فیضی

کتاب کا نام :- سحابِ رحمت

دیگر کلام

آتے رہے میخانے مری راہ گذر میں

کراں فریاد میں تڑپاں تے روواں یارسول اللہ

ستارے نہ شمس و قمر ڈھونڈتی ہے

پڑھتا ہوں جس طرح میں دیارِ نبی کا خط

حضورِ کعبہ حاضر ہیں حرم کی خاک پر سر ہے

یہی عقیدہ ہے ایمان کی بقا کے لئے

کتنے خوش بخت غم کے مارے ہیں

دل دیاں ٹٹیاں نے تاراں سوہنیاں

چکڑ بھریاں نوں کر چھڈیا صاف نبی جی

صد شکر کہ سرکار کا میں مدح سرا ہوں