جن کی رحمت برستی ہےسنسار پر

جن کی رحمت برستی ہےسنسار پر

اُن کی چشمِ کرم ہو گنہ گار پر


گو کہ کافر رہے دُشمنِ جاں مگر

پھر بھی اُنگلی اُٹھائی نہ کردار پر


اُن کو بخشی خُدا نے عجب چاشنی

مر مٹے سننے والے بھی گُفتار پر


پیش کرنے کو اس کے سوا کچھ نہیں

قلب و جاں ہوں فدا میرے سرکار ﷺ پر


سوئے عرشِ علیٰ تھا وہ کیسا سفر

آج سائنس بھی حیراں ہے رفتار پر


خالی دامن تھا پھر بھی چلا ہی گیا

لےکے اشکوں کے تحفے میں دربار پر


ہجر کے درد نے سب کو تڑپا دیا

مِثلِ بِسمل تھے محفل میں اشعار پر


ہے مرض میں اضافہ مرے دم بدم

اب تو کر دیں کرم اپنے بیمار پر


ہیں جلیل اپنے غم کا مداوا وہی

سو جما لی نظر اپنے غمخوار پر

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- مشکِ مدحت

دیگر کلام

میں چلتا ہوں جو سر اپنا اُٹھا کے

رحمتِ عالَم ﷺ کے در سے لَو لگانی چاہئے

محمد ﷺ سے الفت اُبھارے چلا جا

جب حِرا کا پیامِ ہُدٰی نُور ہے

حضور نے کُفر کے اندھیروں کو

چاند،سورج میں،ستاروں میں ہے جلوہ تیرا

صاحبِ فقر و غنا ہیں خواجہ

رحمتِ بے کراں مدینہ ہے

عطائے ربّ ہے جمالِ طیبہ

میرے حضورؐ ! آپ کا حسن و جمال بے مثال