چاند،سورج میں،ستاروں میں ہے جلوہ تیرا
اِن کو بخشی ہے ضیا جس نے ہے مُکھڑا تیرا
بے سہاروں کو میسر ہے سہارا تیرا
میری جانب بھی ہو سرکارﷺ ! اشارہ تیرا
کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا
اس کی دولت ہے فقط نقشِ کفِ پا تیرا
کیا بگاڑیں گے مرا دہر میں اعدا کے ستم
خوش مُقدر ہوں مجھے تیرا سہارا ہے بہم
تُو مٹاتا ہے مرے دل سے سبھی رنج و الم
حشر میں تونے ہی رکھنا ہے غُلاموں کا بھرم
پورے قد سےجو کھڑا ہوں تویہ تیرا ہے کرم
مجھ کو جُھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا
ما سوا تیرے سہارا کوئی کمتر کا نہ تھا
جو گداؤں کا مُقدر ہے سکندر کا نہ تھا
رُوئے انور سا اُجالا مہ و اختر کا نہ تھا
کوئی مخلوق میں آقا کے برابر کا نہ تھا
لوگ کہتے ہیں کہ سایہ ترے پیکر کا نہ تھا
میں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایہ تیرا
گل فشانی مری انگنائی کی تُو نے ہی تو کی
آبیاری دلِ صحرائی کی تُو نے ہی تو کی
رازداری مری رسوائی کی تُو نے ہی تو کی
دلربائی ترے سودائی کی تُو نے ہی تو کی
دستگیری مری تنہائی کی تُو نے ہی تو کی
میں تو مر جاتا اگر ساتھ نہ ہوتا تیرا
تُو مری نعت مرے شعر میں تضمین میں آ
میرے قرطاس پہ ہر سطر کی تدوین میں آ
یثربِ دل ہو مدینہ، دلِ غمگین میں آ
منتظر ہوں تو مرے گفتۂ تحسین میں آ
ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ
راستہ دیکھتی ہے مسجدِ اقصیٰ تیرا
اوجِ اشراق ہے تو میری سحربھی تُو ہے
تو مری وجہِ سفر زادِ سفر بھی تُو ہے
سایہ افگن ہے جہاں پر جو ، شجر بھی تُو ہے
ضَوفشاں دہر میں خورشید و قمر بھی تُو ہے
تُو بشر بھی ہے مگر فخرِ بشر بھی تُو ہے
مجھ کو تو یاد ہے بس اِتنا سراپا تیرا
حضرتِ یوسف و یعقوب سے تاروں کا سہی
یعنی ہر دور میں پُر نُور بہاروں کا سہی
کوچۂ دہر کے پُر کیف نظاروں کا سہی
حضرتِ موسیٰ و ہارون سے ساروں کا سہی
تُجھ سے پہلےکاجو ماضی تھاہزاروں کاسہی
اب جو تا حشر کا فردا ہے وہ تنہا تیرا
ہر گھڑی صرف ترا نام شہا ! لیتا ہوں
جب بھی آزردہ ہوں ، احوال سُنا لیتا ہوں
تیری ناموس پہ شمشِیر اُٹھا لیتا ہوں
تیری اُلفت کو شہا ! ڈھال بنا لیتا ہوں
میں تُجھے عالمِ اشیا میں بھی پا لیتا ہوں
لوگ کہتے ہیں کہ ہے عالَمِ بالا تیرا
بار عصیاں کا لئے تیرے نگر جاتے ہیں
تیری چوکھٹ پہ سبھی بوجھ اتر جاتے ہیں
بد نصیبی سے جو اشخاص بکھر جاتے ہیں
تیرے دربار میں پہنچیں تو سنور جاتے ہیں
وہ اندھیروں سے بھی درّانہ گزر جاتے ہیں
جن کے ماتھوں میں چمکتا ہے ستارا تیرا
چاند تاروں میں چمکتی یہ ضیاہے تُجھ سے
ہےکسی کو جو کسی سے،یہ وفاہے تُجھ سے
ہم کو اللہ کا عرفان ہوا ہے تُجھ سے
جو بھی مشکل ہو شہا! کام بنا ہے تُجھ سے
اب بھی ظُلمات فروشوں کو گِلہ ہےتُجھ سے
رات باقی تھی کہ سورج نکل آیا تیرا
لے کے سینے میں ترے در کی طلب گھومتے ہیں
در پہ جانے کی تمنا ہو تو جب گھومتے ہیں
ہم زمانے میں فقط تیرے سبب گھومتے ہیں
پھر بلاوے کا جو مژدہ ہو تو تب گھومتے ہیں
ندیاں بن کے پہاڑوں میں تو سب گھومتے ہیں
ریگزاروں میں بھی بہتا رہا دریا تیرا
مزرعۂ دہر کے ہر پھول کے رخساروں کو
بہتے دریاؤں کی ہر موج کے سب دھاروں کو
تپتے صحراؤں کو میدانوں کو، کہساروں کو
بستیٔ قلب کے سب کوچہ و بازاروں کو
شرق اور غرب میں بکھرے ہوئے گُلزاروں کو
نکہتیں بانٹتا ہے آج بھی صحرا تیرا
تتلیاں پھولوں کے گلدان پہ جب لوٹتی ہیں
پھول کی موہنی رنگت کے سبب لوٹتی ہیں
پھول سے قلب کا رشتہ ہے یہ تب لوٹتی ہیں
لےکے سینے میں یہ خوشبو کی طلب لوٹتی ہیں
تہ بہ تہ تیرگیاں ذہن پہ جب لوٹتی ہیں
نُور ہو جاتا ہے کُچھ اور ہویدا تیرا
کُوئے سرکار ﷺ کو جاتے ہوئے آہُو دیکھیں
عشقِ سرکار کی خواہش ہے تو باہُو دیکھیں
ہر جگہ الفتِ سرکار ﷺ کا پہلو دیکھیں
آ جلیل آ شہِ کونین کی خوشبو دیکھیں
میری آنکھوں سے جو ڈھونڈیں تُجھے ہر سُو دیکھیں
صرف خلوت میں جو کرتے ہیں نظارا تیرا
شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل
کتاب کا نام :- مشکِ مدحت