ہوئی ظلم کی انتہا کملی والے

ہوئی ظلم کی انتہا کملی والے

بچا کملی والے، بچا کملی والے


غریبوں کی عزت کھلونا بنی ہے

ازل سے امیروں کی گردن تنی ہے


کرن کوئی چھوٹی نہیں بے کسوں کو

جہاں روشنی ہے وہیں روشنی ہے


نئے چاند سورج اُگا کملی والے

بچا کملی والے، بچا کملی والے


یہی ایک فیصد ہیں گھیرے خدائی

اِنھیں کی بدولت ہے ہر جگ ہنسائی


ترے نام پر نفرتیں بانتٹے ہیں

دُہائی غریبوں کے رہبر دُہائی


غبار ان کے شر کا مٹا کملی والے

بچا کملی والے، بچا کملی والے


تجھی کو ہر اک زخم اپنا دکھاوؔں

کسی مقتدر کا نہ احساں اٹھاوؔں


مددگار تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا

مدد کے لیے میں تجھی کو بلاوؔں


یہی آئی دل سے صدا کملی والے

بچا کملی والے، بچا کملی والے

شاعر کا نام :- حبیب جالب

دیگر کلام

دلوں کے ساتھ جبینیں جو خم نہیں کرتے

تاجدارِ حرم اے شہنشاہِ دِیں

کیامیسر ہے ، میسر جس کو یہ جگنو نہیں

جب وہ سفر پر جایا کرتے

دنیا نہیں دیتی تو نہ دے ساتھ ہمارا

بِذِکْرِ الْمُصْطَفٰے ہَادِی الزَّمَان

یَامُدْرِکَ اَحْوَالِیْ

بے نقطہ و نکتہ دانِ عالم

برگ و نوائے بے نوایاں

بیند جو پیمبرؐ را، گوید خورشیدِ سما سبُحانَ اللہ