گلزارِ مدینہ صلِّ علیٰ، رحمت کی گھٹا سبحان اللہ

گلزارِ مدینہ صلِّ علیٰ، رحمت کی گھٹا سبحان اللہ

پُر نور فضا ماشاء اللہ، پُر کیف ہَوا سبحان اللہ


اُس زلفِ معنبر کو چھُو کر مہکاتی ہوئی، اِتراتی ہوئی

لائی ہے پیام ِتازہ کوئی، آئی ہے صبا سبحان اللہ


والشّمس جمالِ ہوش رُبا زلفیں وَالَّیلِ اِذَا یَغْشٰی

القابِ سیادت قراں میں یٰسیں، طٰہٰ، سبحان اللہ


معراج کی شب حضرتؐ کا سفر افلاک کی رونق سَرتا سَر

مہتاب کی صورت روشن ہے نقشِ کفِ پا سبحان اللہ


جب بہرِ شفاعت محشر میں سرکارؐ کا شُہرہ عام ہُوا

اک لہر خوشی کی دوڑ گئی، اُمّت نے کہا سبحان اللہ


ہونٹوں پہ تبّسم کی موجیں، ہاتھوں میں لیے جامِ رحمت

کوثر کے کنارے وہ اُن کا اندازِ عطا سبحان اللہ


آنکھیں روشن، پُر نور نظر، دل نعرہ زناں، جاں رقص کُناں

تاثیرِ دُعا سبحان اللہ پھر اُنؐ کی دُعا، سبحان اللہ


بُوبکرؓ کا حُسنِ صدقِ بیاں، عدلِ عمرؓ آئینِ قرآں

عثمانِ غنیؓ میں رنگِ حیا، حیدرؓ کی سخا سبحان اللہ


کہنے کو تو نعتیں سب نے کہیں، یہ نعت نصیرؔ آفاقی ہے

’’کِتھے مہرِؒ علی کِتّھے تیری ثنا‘‘ کیا خُوب کہا، سبحان اللہ

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- دیں ہمہ اوست

پنجابی ترجمہ: نسِیما جانبِ بَطحا گذر کُن

خود اپنا قصیدہ ہے نامِ محمد

اللہ! کوئی حج کا سبب اب تو بنا دے

دے تبسم کی خیرات ماحول کو

مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ

ئیں کوئی اوقات او گنہار دی

جو ان کے در پر جھکا ہوا ہے

مٹتے ہیں دو عالم کے آزار مدینے میں

سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی

در عطا کے کھلتے ہیں