دے تبسم کی خیرات ماحول کو

ؐدے تبسّم کی خیرات ماحول کو ہم کو درکار ہے روشنی یانبی

ؐایک شیریں جھلک، ایک نوریں ڈلک تلخ و تاریک ہے زندگی یا نبی


اے نویدِ مسیحا تری قوم کا حال عیسیٰؑ کی بھیڑوں سے ابتر ہُوا

اس کے کمزور اور بے ہنر ہاتھ سے چھین لی چرخ نے برتری یانبیؐ


کام ہم نے رکھا صرف اذکار سے تیری تعلیم اپنائی اغیار نے

حشر میں منہ دکھائیں گے کیسے تجھے ہم س ےناکردہ کار اُمتی یانبیؐ


دشمنِ جاں ہُوا میرا اپنا لہو میرے اندر عدو میرے باہر عددو

ماجرائے تحّیر ہے پُرسیدنی، صورتِ حال ہے دیدنی یانبیؐ


روح ویران ہے ، آنکھ حیران ہے ، ایک بحران تھا، ایک بحران ہے

ؐگلشنوں شہروں ،قریوں پہ ہے پرفشاں ایک گمبھیرافسردگی یانبی


سچ مرے دور میں جرم ہے، عیب ہے، جھوٹ فنِ عظیم آج لاریب ہے

ایک اعزاز ہے جہل وبے رہ روی، ایک آزار ہے آگہی یانبیؐ


رازداں اس جہاں میں بناؤں کسے، روح کے زخم جاکر دکھاؤں کسے

غیر کے سامنے کیوں تماشا بنوں، کیوں کروں دوستوں کو دُکھی یانبیؐ


زیست کے تپتے صحرا پہ شاہِؐ عرب، تیرے اکرام کا ابر برسے گا کب

ؐکب ہری ہوگی شاخ ِ تمنّا مری، کب مٹے گی مری تشنگی یانبی


یانبیؐ اب تو آشوبِ حالات نے تیری یادوں کے چہرے بھی دھندلادئیے

ؐدیکھ لے تیرے تائبؔ کی نغمہ گری، بنتی جاتی ہے نوحہ گری یا نبی

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

تصّور غیر ممکن رفعت و شان محمدؐ کا

ہر آنکھ میں پیدا ہے چمک اور طرح کی

حدودِ طائر سدرہ، حضور جانتے ہیں

نظر میں ہے درِ خیرالوریٰ بحمداللہ

اللہ نے پہنچایا سرکارؐ کے قدموں میں

رہی عمر بھر جو انیسِ جاں وہ بس آرزو ئے نبیؐ رہی

جاں آبروئے دیں پہ ٖفدا ہو تو بات ہے

خوشبو ہے دو عالم میں تری اے گلِ چیدہ

خوش ہوں کہ میری خاک ہی احمد نگر کی ہے

دلوں کا شوق، روحوں کا تقاضا گنبد خضرا