رہی عمر بھر جو انیسِ جاں وہ بس آرزو ئے نبیؐ رہی

رہی عمر بھر جو انیسِ جاں وہ بس آرزو ئے نبیؐ رہی

کبھی اشک بن کے رواں ہوئی کبھی درد بن کے دبی رہی


شہِؐ دیں کے فکر و نگاہ سے مٹے نسل ورنگ کے تفرقے

نہ رہا تفاخرِ منصبی، نہ رعونتِ نسبی رہی


سرِدشتِ زیست برس گیا، جو سحابِ رحمتِ مصطفےٰؐ

نہ خرد کی بے ثمری رہی، نہ جنوں کی تشنہ لبی رہی


تھی ہزار تیرگئ فتن، نہ بھٹک سکا مرا فکرو فن

مری کائناتِ خیال پر نظرِ شہِؐ عربی رہی


وہ صفا کا مہر منیر ہے طلب اُس کی نورِ ضمیر ہے

یہی روزگارِ فقیر ہے ، یہی التجائے شبی رہی


وہی ساعتیں تھیں سُرور کی، وہی دن تھے حاصلِ زندگی

بحضورِ شاؐ فِع اُمّتاں مری جن دنوں طلبی رہی

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

ہر آنکھ میں پیدا ہے چمک اور طرح کی

حدودِ طائر سدرہ، حضور جانتے ہیں

نظر میں ہے درِ خیرالوریٰ بحمداللہ

اللہ نے پہنچایا سرکارؐ کے قدموں میں

دے تبسم کی خیرات ماحول کو

جاں آبروئے دیں پہ ٖفدا ہو تو بات ہے

خوشبو ہے دو عالم میں تری اے گلِ چیدہ

خوش ہوں کہ میری خاک ہی احمد نگر کی ہے

دلوں کا شوق، روحوں کا تقاضا گنبد خضرا

رسول مجتبیﷺ کہیے، محمد مصطفیﷺ کہیے