لبوں سے اسمِ محمدﷺ کا نور لف کیا ہے

لبوں سے اسمِ محمدﷺ کا نور لف کیا ہے

تو زندگی کے اندھیروں کو برطرف کیا ہے


اتر رہی ہے مرے دل پہ آیتِ مدحت

حروفِ عجز و معانی کو صف بہ صف کیا ہے


وہ آ رہے ہیں مرے قلب کے مدینے میں

صدائے کربِ دروں کو صدائے دف کیا ہے


وہی سکھائے گا توصیف کا قرینہ مجھے

مجھ ایسے خام کو جس نے قلم بکف کیا ہے


نظر نے چومنا ہے جادۂ دیارِ نبی

جبیں نے نقشِ کفِ مصطفیٰ ہدف کیا ہے


سلام اشکِ رواں میں ملا کے پیش کیا

دہن درود کی خوشبو سے با شرف کیا ہے


تمہاری آل سے الفت میں سرخروئی ہے

اسی خیال نے گرویدۂ نجف کیا ہے

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان

دیگر کلام

کدوں سوالی ہاں اہلِ دہور دَر در دا

زیست کے عنواں اشاراتِ رسولِؐ ہاشمی

حضور لطف و عطا کا کمال رکھتے ہیں

رحمت کی برستی بارش میں انسان پیاسا رہ جاتا

مژدۂ رحمت حق ہم کو سنانے والے

مَیں سراپا خطا و فِسق و فجُور

اس طرف بھی شاہِ والا

اج خالِق دا دلدار آیا اج نبیاں دا سَردار آیا

پڑھ لے صلِ علیٰ ابھی کے ابھی

نور حق آپؐ میں کتنا گُم ہے