صراطِ حَسّان

لائقِ حمد و ثناء مالک بھی ہے معبود بھی

جبینِ خامہ حضورِ اکرم کے سنگِ در پر جھکائے راکھوں

لبوں سے اسمِ محمدﷺ کا نور لف کیا ہے

پڑا ہے اسمِ نبی سے رواج حرفوں کا

سنا، دیارِ کا سارا حال مجھے

جہاں نوشابۂ لطف و کرم رکھا ہوا ہے

کاش ابروئے شہِ دین کا جلوہ دیکھیں

میں نازشِ مہر و ماہ چہرے کی

جب اتار دیتا ہوں، حرفِ نعت کاغذ پر

ہم اپنے دل کو ارادت شناس رکھتے ہیں

مجھے بھی سرخابِ حرف کا پر ملا ہوا ہے

دیارِ نور میں جناں کا باغ رکھ دیا گیا

ایسا شہ پارہ مجسم کر دیا خلاق نے

شاعری کے ماتھے پر ان کی بات مہکے گی

مدینے والے ہمارے دل ہیں ازل سے تشنہ ازل سے ترسے

سب حقیقت کھل گئی کونین کی تحقیق سے

بروزِ حشر غلاموں کا راز فاش نہ ہو

راستہ دکھاتا ہوں نعت کے اجالے سے

تیرگی کو سحر کر لیا جائے تو؟

محبتِ رسول میرے من کی میت ہو گئی

درونِ دل محبتوں کا اعتکاف ہو گیا

کیسے رکھتا میں آنکھوں کا نم تھام کر

آج بھی پلکوں پہ لرزاں ہجر کا تلخاب ہے

دیارِ طیبہ میں کچھ مسافر کرم کی لے کر ہوس گئے ہیں

مشکِ جاں ساز رگِ جاں میں بسا ہووے ہے

من موہن کی یاد میں ہر پل ساون بن کر برسے نیناں

دیارِ خوشبو کے ذرے ذرے کا کر رہی ہے طواف خوشبو

کتابِ مدحت میں شاہِ خوباں کی چاہتوں کے گلاب لکھ دوں

نعلین گاہِ شاہ سے لف کر دیئے گئے

گذشتہ رات یادِ شاہ دل میں سو بسو رہی