دیارِ نور میں جناں کا باغ رکھ دیا گیا

دیارِ نور میں جناں کا باغ رکھ دیا گیا

یہیں صراطِ خلد کا سراغ رکھ دیا گیا


لٹا رہا ہے مدحتِ امامِ انبیاء کی ضو

مرے قلم میں ضوفشاں چراغ رکھ دیا گیا


سمجھ لیا نہ جانے اس کو عکسِ عارضِ نبی

اسی لئے رخِ قمر میں داغ رکھ دیا گیا


شرابِ عشقِ مصطفیٰ کی بوند کا سوال تھا

نظر سے ہو گئی بہم، ایاغ رکھ دیا گیا


گمان کیا گیا جمالِ بے پناہ کی طرف

ختن کا مشک در دل و دماغ رکھ دیا گیا


بروزِ مرگ ہو گیا ہے اہتمام وصل کا

لحد میں طولِ ہجر سے فراغ رکھ دیا گیا

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان

دیگر کلام

درودوں سلاموں سے مہکی ہوا ہے

دل نشیں ہیں ترے خال و خد یانبی

بزمِ کونین سجانے کے لیے آپ آئے

ہم کو اپنی طلب سے سوا چایئے

تشریف لائی ذاتِ رسالت مآب آج

رنگ اپنا دکھایا گلی گلی مجھے تو نے پھرایا گلی گلی

صدفِ نُورِ الہٰی کا گُہر کیا ہوگا

حُبِ سرور جس کی خاطر جان ہے ایمان ہے

چمن چمن ہے بہار تجھؐ سے

امیراں دی گل ناں غریباں دی گل اے