آج بھی پلکوں پہ لرزاں ہجر کا تلخاب ہے

آج بھی پلکوں پہ لرزاں ہجر کا تلخاب ہے

جانے کب تقدیر میں دیدار کا نوشاب ہے


تیرے دم سے رونقِ کونین ہے یا مصطفیٰ

خاکِ طیبہ تیری نسبت سے ہوئی زرناب ہے


اس کی آنکھوں کو فرشتے دیکھنے آتے رہے

جس کی آنکھوں میں مدینے کی گلی کا خواب ہے


بے شبہ میرا نبی ہے رونقِ بزمِ جہاں

منبعِ انوار ہے خورشیدِ عالم تاب ہے


آج بھی غارِ حرا تکتی ہے رستہ آپ کا

مضطرب، بے چین، بے کل آج بھی محراب ہے


اس طرف مقبول ہوگا حج و عمرہ آپ کا

شہرِ طیبہ کا اشارہ دے رہا میزاب ہے


یا نبی، اشفاقؔ نامی ایک شاعر نعت گو

آپ کے در کی حضوری کے لئے بےتاب ہے

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان

دیگر کلام

راستہ دکھاتا ہوں نعت کے اجالے سے

تیرگی کو سحر کر لیا جائے تو؟

محبتِ رسول میرے من کی میت ہو گئی

درونِ دل محبتوں کا اعتکاف ہو گیا

کیسے رکھتا میں آنکھوں کا نم تھام کر

دیارِ طیبہ میں کچھ مسافر کرم کی لے کر ہوس گئے ہیں

مشکِ جاں ساز رگِ جاں میں بسا ہووے ہے

من موہن کی یاد میں ہر پل ساون بن کر برسے نیناں

دیارِ خوشبو کے ذرے ذرے کا کر رہی ہے طواف خوشبو

کتابِ مدحت میں شاہِ خوباں کی چاہتوں کے گلاب لکھ دوں