دیارِ طیبہ میں کچھ مسافر کرم کی لے کر ہوس گئے ہیں

دیارِ طیبہ میں کچھ مسافر کرم کی لے کر ہوس گئے ہیں

دکھا دو جلوہ ہٹا کے پردہ ہمارے نیناں ترس گئے ہیں


ہمیں بھی دو بوند ہوں عنایت ہمارا دامن بھی منتظر ہے

تری عطا کے، ترے کرم کے مطیر بادل برس گئے ہیں


کوئی بھی دل کش حسین منظر نظر میں جچتا نہیں ہماری

درِ نبی کے حسیں نظارے ہماری آنکھوں میں بس گئے ہیں


ترے ثناءگو کا ایک اک پل حضوریوں میں گزر رہا ہے

ذرا توجہ ہٹی تھی میری تو ناگ فرقت کے ڈس گئے ہیں


پرندے فکر و خیال والے سدا رہیں گے اسیر تیرے

ملا نہیں اذنِ باریابی پلٹ کے سوئے قفس گئے ہیں


ہو نقشِ پا پر یہ جان قرباں ہو نعلِ پا پر جہان قرباں

سنا کے مژدہ شفاعتوں کا جو گھول کانوں میں رس گئے ہیں


رواں تھا اشفاقؔ بحر رحمت کرم کی موجیں عروج پر تھیں

مرے گناہوں کے بھاری پتھر مثالِ خاشاک و خس گئے ہیں

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان

دیگر کلام

تیرگی کو سحر کر لیا جائے تو؟

محبتِ رسول میرے من کی میت ہو گئی

درونِ دل محبتوں کا اعتکاف ہو گیا

کیسے رکھتا میں آنکھوں کا نم تھام کر

آج بھی پلکوں پہ لرزاں ہجر کا تلخاب ہے

مشکِ جاں ساز رگِ جاں میں بسا ہووے ہے

من موہن کی یاد میں ہر پل ساون بن کر برسے نیناں

دیارِ خوشبو کے ذرے ذرے کا کر رہی ہے طواف خوشبو

کتابِ مدحت میں شاہِ خوباں کی چاہتوں کے گلاب لکھ دوں

نعلین گاہِ شاہ سے لف کر دیئے گئے