درونِ دل محبتوں کا اعتکاف ہو گیا
حضور نے کرم کیا تو دل مطاف ہو گیا
اڑائی گردِ معصیت درود کے جمال نے
ہمارے دل کے آئینے سے میل صاف ہو گیا
مشامِ جاں میں عشقِ مصطفیٰ کی روشنی بسی
تو ظلمتوں کے موسموں سے اختلاف ہو گیا
عطا بہت عظیم ہے یہ لم یزل کریم کی
حضور کی طرف ہمارا انعطاف ہو گیا
ظہور ہو گیا ہے آفتابِ نیم روز کا
نظر نظر پہ روشنی کا انکشاف ہو گیا
کسی نے حالِ زار پوچھنا کہاں تھا حشر میں
شفاعتوں سے جرمِ معصیت معاف ہو گیا
اشارہ شاہِ بحر و بر نے چاند کی طرف کیا
جگر قمر کا ایک پل میں شین قاف ہو گیا
شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری
کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان