راستہ دکھاتا ہوں نعت کے اجالے سے

راستہ دکھاتا ہوں نعت کے اجالے سے

میں بھی جانا جاتا ہوں نعت کے حوالے سے


جب خیال آتا ہے صاحبِ دو عالم کا

روح میں اترتے ہیں بے بہا اجالے سے


کب قرار پائے گا میرا دل مدینے کا

چبھ رہے ہیں سینے میں فرقتوں کے بھالے سے


ریگِ دل میں پھوٹا ہے آب ہجرِ طیبہ کا

سیر ہو کے پیتا ہوں درد کے پیالے سے


جب اتاری جاتی ہے نعت میرے سینے پر

سرفراز ہوتا ہوں روشنی کے ہالے سے


ٹھوکروں میں رکھتا ہے تاج و تختِ سلطانی

جس کو بھیک ملتی ہے کالی کملی والے سے


آپ کو مواجہ پر حالِ دل سنانا تھا

فرطِ عشق سے لب پر پڑ گئے ہیں تالے سے

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان

دیگر کلام

یا رب مجھے بُلانا دربارِ مصطفیٰ میں

سلام اُس نورِ اوّلیں پر

لذّتِ عشق ہے کیا پوچھیے پروانے سے

کرتی ہے تسلسل سے اندھیروں کا سفر رات

چھڑ روندیاں جاون والڑیا دو گھڑیاں آجا کوئی گل نئیں

سونے دیتی نہیں فرقت کی یہ ریناں ہم کو

تمہاری یاد جو دل کا قرار ہو جائے

دل بہت خوش ہے کہ یاد شہؐ ابرار میں ہے

لو جھوم کے نام "محمد" کا اِس نام سے رَاحت ہوتی ہے

ثنائے حبیبِ خدا کر رہا ہوں