کتابِ مدحت میں شاہِ خوباں کی چاہتوں کے گلاب لکھ دوں

کتابِ مدحت میں شاہِ خوباں کی چاہتوں کے گلاب لکھ دوں

ورق ورق چاندنی لٹاتے کروڑہا ماہتاب لکھ دوں


وہ سنگریزے جو راستوں میں پڑے ہوئے ہیں وہ محترم ہیں

دیارِ خوشبو کے ذرے ذرے کو نازشِ آفتاب لکھ دوں


ہوائیں سرگوشیوں میں مژدے شفاعتوں کے سنا رہی ہیں

ہوائے بطحا کے مہکے جھونکوں کو مشک و عنبر کے خواب لکھ دوں


یقیں ہے کامل درود وجہِ نجات ہوگا بروزِ محشر

درود ذاتِ رسول پر ان گنت پڑھوں بے حساب لکھ دوں


یہ زیست ہو جائے کار آمد اگر اطاعت میں بیت جائے

میں اپنے جیون کا ایک اک پل بنامِ عالی جناب لکھ دوں


بڑے دنوں سے مرے قلم کو بلندیوں کا جنون سا ہے

میں چاہتا ہوں کہ ان کے نعلینِ نور پر بھی کتاب لکھ دوں


حریمِ اشفاقؔ میں مواجہ کا عکسِ دل کش لگا ہوا ہے

میں اس کو گھر پر برسنے والا عنایتوں کا سحاب لکھ دوں

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان

دیگر کلام

آج بھی پلکوں پہ لرزاں ہجر کا تلخاب ہے

دیارِ طیبہ میں کچھ مسافر کرم کی لے کر ہوس گئے ہیں

مشکِ جاں ساز رگِ جاں میں بسا ہووے ہے

من موہن کی یاد میں ہر پل ساون بن کر برسے نیناں

دیارِ خوشبو کے ذرے ذرے کا کر رہی ہے طواف خوشبو

نعلین گاہِ شاہ سے لف کر دیئے گئے

گذشتہ رات یادِ شاہ دل میں سو بسو رہی

شوقِ دیدار ہے طاقِ امید پر

خطا کار چوکھٹ پہ آئے ہوئے ہیں

گرے جب اشک طیبہ میں پلک سے