جہاں نوشابۂ لطف و کرم رکھا ہوا ہے
اسی در پر سرِ تسلیم خم رکھا ہوا ہے
مرا ہر عیب دنیا کی نگاہوں سے چھپا کر
شہِ ابرار نے میرا بھرم رکھا ہوا ہے
مجھے تھکنے نہیں دیتا درِ سرکارِ بطحا
اسی در کی کشش نے تازہ دم رکھا ہوا ہے
یقیناً اشک شوئی آپ فرمائیں گے میری
اسی امید پر آنکھوں کو نم رکھا ہوا ہے
تصور میں دیارِ نور ہو ہر وقت میرے
تعلق اس لئے دنیا سے کم رکھا ہوا ہے
کہاں ممکن ہے ایسا دوسرا آقا، کہ جس نے
غلاموں کو بصد ناز و نعم رکھا ہوا ہے
عطا ہوگا کبھی اک نعت کا مقبول مصرع
درِ امید پر کاغذ قلم رکھا ہوا ہے
جناں کا بوستاں اللہ نے ہر ایک ماں کے
طفیلِ آمنہ زیرِ قدم رکھا ہوا ہے
مرے آنسو معطر کیوں نہ ہوں اشفاقؔ، میں نے
حسین ؓ ابنِ علی ؓ کا دل میں غم رکھا ہوا ہے
شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری
کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان