قسم یاد فرمائی قرآں نے جن کی وہی تو مری زیست کے مدعا ہیں
مرے دل کی دھڑکن میں ہے نام ان کا وہی تو مری روح کے منتہیٰ ہیں
افق سے شفق تک انہی کے ہیں چرچے زمیں سے فلک تک انہی کی حکومت
وہ انسان و جن و ملائک کے آقا، وہی قاسمِ نعمتِ کبریا ہیں
وہ دربارِ رب کے ہیں مقبولِ اعظم، وہی سبز پوشوں میں سب سے معظم
وہی محترم، محتشم اور مکرم، بس اتنا سمجھ لو حبیبِ خدا ہیں
وہ شانِ کریمی کہ دشمن کو اپنے معافی دیں، انعام سے بھی نوازیں
وہ شان رحیمی میں ممتاز سب سے، وہ حاجتِ رواؤں کے حاجت روا ہیں
انہی کی رفاقت کا اللہ نے ایک دن ساری روحوں سے وعدہ لیا تھا
وہ عیسیٰ کی جاں اور تمنائے موسیٰ، وہی تو خلیلِ خدا کی دعا ہیں
وہ ممدوحِ قرآں وہ مقصودِ ایماں وہ ایمان کی جاں وہ ایماں کا ایماں
وہ محشر کے دن ان کی فرماں روائی، وہ مشکل کشاؤں کے مشکل کشا ہیں
ہمیں شاہِ برکات نے یہ سکھایا مدینہ سدا اپنے سینے میں رکھنا
نبی کی اطاعت ہو ایماں ہمارا، جئیں اور مریں جیسے سرکار چاہیں
میں اچھے میاں کے مکاں کا مکیں ہوں، میں ہوں شاہ نوری کی گدّی کا وارث
مری پشت پر میرے مرشد کا پنجہ وہی ہر قدم پر مرے رہنما ہیں
مجھے ورغلانے جو ابلیس آیا تو میں نے اسے اتنا کہہ کر بھگایا
مری روح پر قبضہ سید میاں کا مرے دل کے مختار احمد رضا ہیں
یہ مارہرہ کی وہ مقدس زمیں ہے جہاں قادری میکدہ سج گیا ہے
یہاں ایک ساقی ہیں بغداد والے تو اک ساقی سرکار خواجہ پیا ہیں
بڑی دور سے نظمی آیا ہے در پر لیے چشمِ نمناک اور قلبِ مضطر
کرم کی نظر آقا اپنے گدا پر بہت ہوچکیں اب تو آہیں کراہیں
شاعر کا نام :- سید آل رسول حسنین میاں برکاتی نظمی
کتاب کا نام :- بعد از خدا