شاعری کے ماتھے پر ان کی بات مہکے گی
لفظ مسکرائیں گے اور نعت مہکے گی
دیدِ شاہ کی خواہش بند آنکھ میں رکھ لوں
آنکھ میں یہ کستوری ساری رات مہکے گی
صرف تذکرہ کیجے والضحیٰ کے چہرے کا
لٹ حسین زلفوں کی سات سات مہکے گی
میری روح بطحا کے بوستان میں جا کر
ڈال ڈال جھومے گی پات پات مہکے گی
جب بھی لکھا جائے گا نام سرورِ دیں کا
مشکبو قلم ہوگا اور دوات مہکے گی
مشک عشقِ سرور کا دل میں رکھ لیا جائے
تب خیال مہکے گا تب حیات مہکے گی
تیر کھائے اصغر سے کہہ دیا فرشتوں نے
کربلا کے پھولوں سے کائنات مہکے گی
شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری
کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان