مدینے والے ہمارے دل ہیں ازل سے تشنہ ازل سے ترسے

مدینے والے ہمارے دل ہیں ازل سے تشنہ ازل سے ترسے

ازل کی تشنہ زمینِ دل پر کرم کا ابرِ مطیر برسے


لطیف جذبے عمیق جملے جمیل نعتیں جو لکھ رہا ہوں

میں لے کے آیا ہوں ذوقِ مدحت نبیٔ اکرم کے سنگِ در سے


دیارِ بطحا کا ذرہ ذرہ ہے ماہ و انجم سے بڑھ کے روشن

سمجھ نہ آئے اگر یہ منطق مدینہ دیکھو مری نظر سے


قرار دیتی ہوئی یہ راہیں بسائے رکھنا دل و نظر میں

گزر کے جائیں گے اہلِ جنت اسی مدینے کی رہ گزر سے


ہمیں بہت یاد آ رہی ہیں وہ عود و عنبر سے پر فضائیں

کہاں سے لائیں وہ کشتِ جنت فضا وہ لائیں گے ہم کدھر سے


ملی ہے جود و سخا کی عادت کریم ہیں وہ کرم ہے خصلت

معاف کرنا ہے ان کا شیوہ وہ کام لیتے ہیں در گزر سے


نگاہِ اشفاقؔ شہرِبطحا کو چومتی ہے عقیدتوں سے

امام مالک کی مثل آنکھیں لپٹ کے روتی ہیں بام و در سے

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان

دیگر کلام

ہم اپنے دل کو ارادت شناس رکھتے ہیں

مجھے بھی سرخابِ حرف کا پر ملا ہوا ہے

دیارِ نور میں جناں کا باغ رکھ دیا گیا

ایسا شہ پارہ مجسم کر دیا خلاق نے

شاعری کے ماتھے پر ان کی بات مہکے گی

سب حقیقت کھل گئی کونین کی تحقیق سے

بروزِ حشر غلاموں کا راز فاش نہ ہو

راستہ دکھاتا ہوں نعت کے اجالے سے

تیرگی کو سحر کر لیا جائے تو؟

محبتِ رسول میرے من کی میت ہو گئی