ہم اپنے دل کو ارادت شناس رکھتے ہیں

ہم اپنے دل کو ارادت شناس رکھتے ہیں

حضوریوں کے لئے محوِ آس رکھتے ہیں


جھکائے رکھتے ہیں پیشانیاں مواجہ پر

اطاعتوں پہ وفا کی اساس رکھتے ہیں


بلائے جائیں گے اک روز ہم مدینے میں

وفورِ شوق کا پہنے لباس رکھتے ہیں


عطا ہوا ہمیں اعزاز نعت گوئی کا

ہم اپنی فکر سراپا سپاس رکھتے ہیں


نگاہ رکھتے ہیں سنگِ درِ رسالت پر

جبینِ عجز مواجہ کے پاس رکھتے ہیں


سماعتیں بھی رہیں واقفِ ثنائے نبی

زباں بھی مدحِ رسالت شناس رکھتے ہیں


مسرتیں انہیں اشفاقؔ ڈھونڈ لیتی ہیں

جو مصطفیٰ کے لئے دل اداس رکھتے ہیں

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان

دیگر کلام

سنا، دیارِ کا سارا حال مجھے

جہاں نوشابۂ لطف و کرم رکھا ہوا ہے

کاش ابروئے شہِ دین کا جلوہ دیکھیں

میں نازشِ مہر و ماہ چہرے کی

جب اتار دیتا ہوں، حرفِ نعت کاغذ پر

مجھے بھی سرخابِ حرف کا پر ملا ہوا ہے

دیارِ نور میں جناں کا باغ رکھ دیا گیا

ایسا شہ پارہ مجسم کر دیا خلاق نے

شاعری کے ماتھے پر ان کی بات مہکے گی

مدینے والے ہمارے دل ہیں ازل سے تشنہ ازل سے ترسے